اسلام آباد

ٹیلی کام آپریٹرز کو مشتبہ افراد کا ڈیٹا پولیس کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت مل گئی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آخر کار سیلولر کمپنیوں کو جرائم کے بعد تفتیش کے لیے مشتبہ افراد سے متعلق ڈیٹا پولیس سے شیئر کرنے کی اجازت دے دی، کیونکہ پچھلے حکم کی وجہ سے متعدد انکوائریاں رک گئی تھیں جس نے ٹیلی کام آپریٹرز کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سہولت فراہم کرنے سے روک دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم آڈیو لیکس کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے میاں نجم ثاقب اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر جاری کیا گیا۔

29 مئی کو جسٹس بابر ستار نے حکم امتناع جاری کیا جس کے نتیجے میں ٹیلی کام آپریٹرز نے پولیس کے تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیا تھا۔

گزشتہ سماعت پر اسلام آباد پولیس کے لا ڈائریکٹر طاہر کاظم اور ٹیلی کام لائسنسوں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ لائسنس یافتہ افراد نے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر)، ملزمان کے لائیو لوکیشنز اور صارفین کا ٹیلی کام ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شیئر کرنا معطل کر دیا ہے۔

جسٹس ستار نے حکم دیا کہ چونکہ محکمہ داخلہ ایا پی ٹی اے کی طرف سے ٹیلی کام لائسنس دہندگان کو پولیس حکام اور تفتیشی ایجنسیوں کو صارفین کے ٹیلی کام ڈیٹا کی فراہمی کے حوالے سے جاری کردہ کسی بھی ہدایات اور ایس او پیز کی قانونی حیثیت کا سوال ابھی طے نہیں ہوا ہے، ٹیلی کام لائسنس دہندگان آئندہ سماعت تک وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق اس طرح کا ڈیٹا شیئر کرنا جاری رکھیں گے۔

قبل ازیں طاہر کاظم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سیلولر کمپنیوں کو نگرانی کے خلاف جاری کردہ بلینکٹ آرڈر کے بعد، انہوں نے معمول کے جرائم کی تحقیقات کے لیے انتہائی ضروری ڈیٹا کا اشتراک کرنا بند کر دیا ہے، انہوں نے دلیل دی کہ جاسوسی اور پوسٹ کرائم انویسٹی گیشن کے درمیان واضح فرق کے باوجود، سیلولر کمپنیاں دونوں منظرناموں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کر رہی تھیں۔

اس حکم نے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم کی تحقیقات اور دہشت گردی کی نگرانی میں عملی طور پر معذور کر دیا تھا کیونکہ عدالت نے سیلولر کمپنیوں کو شہریوں کا ڈیٹا ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنے سے روک دیا تھا۔

جسٹس بابر ستار نے 29 مئی کے حکم نامے میں کہا کہ وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے دائر رپورٹس اور ماہر وکلا کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیلی گراف کے سیکشن 5 اور ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کا سیکشن 54کے تحت وفاقی حکومت کی جانب سے کسی بھی فرد، ادارے یا ایجنسی کو کالز، پیغامات کو روکنے اور پاکستان کے شہریوں کی نگرانی کرنےکوئی اجازت نہیں دی گئی۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق، فیئر ٹرائل ایکٹ ہائی کورٹ کے جج کے ذریعے نگرانی کے لیے درخواستوں کی منظوری فراہم کرتا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کے ذریعے اس مقصد کے لیے جاری کردہ وارنٹ کے علوہ کوئی فون ٹیپنگ یا دیگر نگرانی نہیں کی جا سکتی، اس طرح کی کوئی بھی غیر مجاز نگرانی آئین کے آرٹیکل 9، 10 اے ، 14 اور 19 کے ذریعے ضمانت دیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہوگی، جسے آرٹیکل 4 کے ساتھ پڑھا گیا ہے، اور اس سے شہریوں کی آزادی، وقار اور رازداری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

عدالت نے ہدایت جاری کی کہ انٹیلی جنس ایجنسی بشمول آئی ایس آئی اور آئی بی، اور پولیس حکام سماعت کی اگلی تاریخ تک، فیئر ٹرائل ایکٹ کے تقاضوں اور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے وارنٹ جاری کیے جانے کے علاوہ کسی بھی شہری کی نگرانی نہیں کریں گے، اور نہ ہی پی ٹی اے اور نہ ہی ٹیلی کام کمپنیاں کسی بھی نگرانی یا فون کالز یا ڈیٹا کی روک تھام کے مقاصد کے لیے اپنی خدمات یا آلات کے استعمال کی اجازت دیں گی۔

واضح رہے کہ 26 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے دارالحکومت کی پولیس کی جانب سے جرم کے بعد مشتبہ افراد کی نگرانی کی اجازت دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت میں پیش ہوکر اسلام آباد پولیس کے ڈائریکٹر لا طاہر کاظم نے کہا کہ گزشتہ ماہ نگرانی کے خلاف عدالت کے حکم کے بعد، سیلولر کمپنیوں نے معمول کی مجرمانہ تحقیقات کے لیے درکار انتہائی ضروری ڈیٹا کا اشتراک کرنا بند کر دیا ہے۔

16 جون کو اسلام آباد پولیس نے ایڈووکیٹ جنرل پر زور دیا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ حکم کو چیلنج کریں جس نے انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم کی تحقیقات اور دہشتگردی کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے عملی طور پر معذور کر دیا ہے۔

وہ 30 مئی کے جج کے حکم کا حوالہ دے رہے تھے جہاں جج نے کہا کہ کسی بھی ریاستی اہلکار کو شہریوں کی نگرانی کرنے کا اختیار نہیں ہے اور جو بھی ایسا کرے گا یا اس طرح کی کارروائیوں میں مدد کرے گا وہ جرم کا ذمہ دار ہوگا۔